Thursday, May 14, 2009
Sunday, January 4, 2009
8غزل
کچھ رنگ ہیں جوبھرنےکےقابل نہیںہوتے
یہ عکس ادھورےہیں مکمّل نہیں ہوتے
కుచ్ రంగ్ హేన్ జో భార్నేకే ఖాబిల్ నహి హోతే
کوشش توبہت کرتےہیںڈوبے نہیں سکین
کچھ لوگوں تقدیرساحل نہیںہوتے
دستک بھی نہ دی تمنے نہ آوازلگائ
اے دوست کسی گھرمیںیوںداجل نہیں ہوتے
کچھ دیر نگاہوںپےلگالینےجوپہرے
رُسوا میرے جزبےسنرمحفل نہیں ہوتے
یہ وقت کی گردش کہاںلےجاۓگی دیکھیں
سبراہوں کےرُخ جانب منزر نہیں ہوتے
سلجھایاکۓ زندگی بھرا لجھنیں
،میں ایسےبھی مسَلے جوکبھی حل نہیںہوتے
ہم جیتی ہوئ بازی نہ یوں ہارتےشاید
انجم وہ اگر میرے قابل نہیں ہوتے
یہ عکس ادھورےہیں مکمّل نہیں ہوتے
కుచ్ రంగ్ హేన్ జో భార్నేకే ఖాబిల్ నహి హోతే
کچھ لوگوں تقدیرساحل نہیںہوتے
دستک بھی نہ دی تمنے نہ آوازلگائ
اے دوست کسی گھرمیںیوںداجل نہیں ہوتے
کچھ دیر نگاہوںپےلگالینےجوپہرے
رُسوا میرے جزبےسنرمحفل نہیں ہوتے
یہ وقت کی گردش کہاںلےجاۓگی دیکھیں
سبراہوں کےرُخ جانب منزر نہیں ہوتے
سلجھایاکۓ زندگی بھرا لجھنیں
،میں ایسےبھی مسَلے جوکبھی حل نہیںہوتے
ہم جیتی ہوئ بازی نہ یوں ہارتےشاید
انجم وہ اگر میرے قابل نہیں ہوتے
7غزل
کتاب محبٌت پڑھایاکریں
اصول دفاہم سکھایاکریں
شغاعوں کی شاجیں بنایاکریی
نیاروزسورج اگایاکریی
کریں پاک اور صاف ہر قلب کو
حسداورکینہ مٹایاکریی
بناتےرہیںدوستی کی فضا
دلوںسے رقابت ہٹایاکریی
بنیں اک پریوارکےرکن فیض
یہ پیغام سب کو سنا یاکریں
اصول دفاہم سکھایاکریں
شغاعوں کی شاجیں بنایاکریی
نیاروزسورج اگایاکریی
کریں پاک اور صاف ہر قلب کو
حسداورکینہ مٹایاکریی
بناتےرہیںدوستی کی فضا
دلوںسے رقابت ہٹایاکریی
بنیں اک پریوارکےرکن فیض
یہ پیغام سب کو سنا یاکریں
Friday, January 2, 2009
غزل6
اب کوں ہے جو شہرمیں قاتل نہی رہا
ہم رازبھی یقین کے قابل نہیں رہا
یہ بات اور، آج وہ دھنوان بن گیا
کل رہز نوں کے ساتھ وہ شامل نہیں رہا
دُولت خرید لیتی ہے منصف کا فیصلہ
قاتل جوتھا وہ دیکھہ لو قانہیں رہا
اک دوستی کی آڑ میں کھایاہےاس نے زخم
وہ جب سے ہی دوستی کاتل نہیں رہا
بضم حیات میں بڑے سہمے ہوےہیں لوگ
اک چہرہ بھی خوشی سے یہاں کھل نہیں رہا
اب حال دل حیات ہے کچھ یوں بقول اسدَ
جسں دل پہ نازتھاہمیں وہ دل نہیں رہا
ہم رازبھی یقین کے قابل نہیں رہا
یہ بات اور، آج وہ دھنوان بن گیا
کل رہز نوں کے ساتھ وہ شامل نہیں رہا
دُولت خرید لیتی ہے منصف کا فیصلہ
قاتل جوتھا وہ دیکھہ لو قانہیں رہا
اک دوستی کی آڑ میں کھایاہےاس نے زخم
وہ جب سے ہی دوستی کاتل نہیں رہا
بضم حیات میں بڑے سہمے ہوےہیں لوگ
اک چہرہ بھی خوشی سے یہاں کھل نہیں رہا
اب حال دل حیات ہے کچھ یوں بقول اسدَ
جسں دل پہ نازتھاہمیں وہ دل نہیں رہا
Thursday, January 1, 2009
5غزل
اب اس سے شکایت بھی تو بےکار لگے ہے
ہربول میرا جسکو اک تلوار لگے ہے
مغموم پر شان سا گلبار لگے ہے
چہرہ تیرا ہر صبح کا اخبار لگے ہے
بھایَ سے یہاں بھایَ بھی بیضار لگے ہے
پھر کوں کسی کا یہاں غموار لگے ہے
کیا ہو گیا اس دور کے انسان کو یارب
ہرایک یہاں زست سے بیصار لگے ہے
آجا کہ یہ شب مجھے ڈس جاےَ گی ورنہ
ہرلمحہ تیرے ہجر میں دشوار لگے ہے
دعوی تھا اُسے اپنی مسیحای کا لیکن
یو سف وہ مسیحا بھی بیمارلگے ہے
ہربول میرا جسکو اک تلوار لگے ہے
مغموم پر شان سا گلبار لگے ہے
چہرہ تیرا ہر صبح کا اخبار لگے ہے
بھایَ سے یہاں بھایَ بھی بیضار لگے ہے
پھر کوں کسی کا یہاں غموار لگے ہے
کیا ہو گیا اس دور کے انسان کو یارب
ہرایک یہاں زست سے بیصار لگے ہے
آجا کہ یہ شب مجھے ڈس جاےَ گی ورنہ
ہرلمحہ تیرے ہجر میں دشوار لگے ہے
دعوی تھا اُسے اپنی مسیحای کا لیکن
یو سف وہ مسیحا بھی بیمارلگے ہے
غزل4
مین صاف گردسے یوں دل کا آینہ رکھوں
کسی سے کو یی شکایت نہ کچھ گلہ رکھوں
قدم بڈھاتے چلا جارہا ہوں میں پھر بھی
اگرچہ کویی بھی منزل نہ راستہ رکھوں
مجھے جہاں سے نہ اہل جہاں سے کویی غرض
میں صرف تجھ سے تیرے غم سے داسط رکھوں
ہےاب تو جشن چراعاں کی ایک ہی صورت
بحال پلکو پے آشکوں کا سلسہ رکھوں
میں صحن دل میں کھلاوَں گلاب زحموں کے
خزارمیں قصلٍ بہاراں سے رابطہ رکھوں
ہزار غم ہیں مسَلسل میرے تعا قب میں
یہ میرا ظرف کہ میں پھربھی حوصلہ رکھوں
زباں پہ اور ہو کچھ دل میں اور کچھ حسرت
دل و زبان میں کیوں اتنا فاصسلہ رکھوں
کسی سے کو یی شکایت نہ کچھ گلہ رکھوں
قدم بڈھاتے چلا جارہا ہوں میں پھر بھی
اگرچہ کویی بھی منزل نہ راستہ رکھوں
مجھے جہاں سے نہ اہل جہاں سے کویی غرض
میں صرف تجھ سے تیرے غم سے داسط رکھوں
ہےاب تو جشن چراعاں کی ایک ہی صورت
بحال پلکو پے آشکوں کا سلسہ رکھوں
میں صحن دل میں کھلاوَں گلاب زحموں کے
خزارمیں قصلٍ بہاراں سے رابطہ رکھوں
ہزار غم ہیں مسَلسل میرے تعا قب میں
یہ میرا ظرف کہ میں پھربھی حوصلہ رکھوں
زباں پہ اور ہو کچھ دل میں اور کچھ حسرت
دل و زبان میں کیوں اتنا فاصسلہ رکھوں
غزل3
عم جواں ہوگا تو ہو نٹو کی ہنسی مر جاےَ گی
اپنا چہرہ دیکھ کے حود مند گی ڈرجا ےَ گی
قحط اسبا ب کچھ بھی ہوں مگر یہ جان لو
تشن لب جو ہوں تہمت ان کے ہی سر جا ےَ گی
اک سنہری یاد جوڈ سنی ہے ناگن کی طرح
اجری قطرہ لہو کا میرے پی کر جا ےَ گی
”آستیں کا سانپ” کی نشریح جب ہو گی کبھی
بات چل کر دوستوں کی دشمنی پر جا ےَ گی
اینے سے بےرجی کی ضد نہ کر نا بھول کر
تم کو قود اپنی نظر میں اجنبی کر جاےَ گی
اس دریچے کو زرا معصوم دا ہو نے تو دو
دیکھنا پھولوں سے- افسر دہ گلی بھر جاےَگی
اپنا چہرہ دیکھ کے حود مند گی ڈرجا ےَ گی
قحط اسبا ب کچھ بھی ہوں مگر یہ جان لو
تشن لب جو ہوں تہمت ان کے ہی سر جا ےَ گی
اک سنہری یاد جوڈ سنی ہے ناگن کی طرح
اجری قطرہ لہو کا میرے پی کر جا ےَ گی
”آستیں کا سانپ” کی نشریح جب ہو گی کبھی
بات چل کر دوستوں کی دشمنی پر جا ےَ گی
اینے سے بےرجی کی ضد نہ کر نا بھول کر
تم کو قود اپنی نظر میں اجنبی کر جاےَ گی
اس دریچے کو زرا معصوم دا ہو نے تو دو
دیکھنا پھولوں سے- افسر دہ گلی بھر جاےَگی
Subscribe to:
Posts (Atom)